سونے ہی رہے ہجر کے صحرا اسے کہنا
سوکھے نہ کبھی پیار کے دریا اسے کہنا
برباد کیا ہم کو تری کم نظری نے
یوں ہوتے نہ ورنہ کبھی رسوا اسے کہنا
اک حشر بپا کر کے سر شام سفر میں
پھر تو نے مرا حال نہ پوچھا اسے کہنا
جس حشر کے ڈر سے وہ جدا مجھ سے ہوا تھا
وہ حشر تو پھر بھی ہوا برپا اسے کہنا
اک خواب سا دیکھا تھا تو میں کانپ اٹھا تھا
پھر میں نے کوئی خواب نہ دیکھا اسے کہنا
غزل
سونے ہی رہے ہجر کے صحرا اسے کہنا
صفدر سلیم سیال