سوکھی زمیں کو یاد کے بادل بھگو گئے
پلکوں کو آج بیتے ہوئے پل بھگو گئے
آنسو فلک کی آنکھ سے ٹپکے تمام رات
اور صبح تک زمین کا آنچل بھگو گئے
ماضی کے ابر ٹوٹ کے برسے کچھ اس طرح
مدت سے خشک آنکھوں کے جنگل بھگو گئے
وقت سفر جدائی کے لمحات مضمحل
اک بے وفا کی آنکھ کا کاجل بھگو گئے
میں منظروں میں کھویا ہوا پربتوں کے تھا
آ کر کسی کی یاد کے بادل بھگو گئے
غزل
سوکھی زمیں کو یاد کے بادل بھگو گئے
ظہیر احمد ظہیر