سوکھے ہوئے پتوں میں آواز کی خوشبو ہے
الفاظ کے صحرا میں تخیل کا آہو ہے
جاتے ہوئے سورج کی اک ترچھی نظر ہی تھی
تب شرم کا سندور تھا اب ہجر کا گیسو ہے
مسحور فضا کیوں ہے مجبور صبا کیوں ہے
رنگوں کے حصاروں میں نغمات کا جادو ہے
موجوں سے الجھنا کیا طوفان سے گزرنا کیا
ہر ڈوبنے والے کو احساس لب جو ہے
اس دور خرد میں بھی اے کاش یہ ممکن ہو
تو سوچے کہ بس میں ہوں میں سمجھوں کہ بس تو ہے
کب آنکھ جھپک جائے تصویر بدل جائے
ہر لمحہ سبک رو ہے ہر جلوہ تنک خو ہے
بازار تمنا کی ہر چیز ہی نازک ہے
اجناس غم دل ہیں پلکوں کی ترازو ہے
غزل
سوکھے ہوئے پتوں میں آواز کی خوشبو ہے
ظہیر صدیقی