سوئے دریا خندہ زن وہ یار جانی پھر گیا
موتیوں کی آبرو پر آج پانی پھر گیا
سوئیاں سی کچھ دل وحشی میں پھر چبھنے لگیں
ٹھیک ہونے کو لباس ارغوانی پھر گیا
ہتھکڑی بھاری ہے میرے ہاتھ کی آج اے جنوں
دست جاناں کا کہیں چھلا نشانی پھر گیا
زور پیدا کر کہ پہنچے جیب تک دست جنوں
اب تو موسم اے وفور ناتوانی پھر گیا
سرفروشان محبت سے نہ ہوگی آنکھ چار
منہ جو اس کی تیغ کا اے سخت جانی پھر گیا
کہتے ہو ہم آج ملک حسن کے ہیں بادشاہ
کیا ہما بالائے سر اے یار جانی پھر گیا
کیوں کبوتر کے عوض ہدہد نہ لایا خط شوق
اس خطا پر مجھ سے وہ بلقیس ثانی پھر گیا
بوسہ کیسا اک لب شیریں سے گالی بھی نہ دی
آج پھر امیدوار مہربانی پھر گیا
اے ضعیفی سایہ سر پر سے گیا دھوپ آ گئی
فصل بدلی آفتاب زندگانی پھر گیا
گر پڑے آنسو عروج ماہ کامل دیکھ کر
مری نظروں میں ترا عہد جوانی پھر گیا
غزل
سوئے دیار خندہ زن وہ یار جانی پھر گیا
تعشق لکھنوی