EN हिंदी
سرور و کیف ہے کچھ لذت بقا تو نہیں | شیح شیری
surur-o-kaif hai kuchh lazzat-e-baqa to nahin

غزل

سرور و کیف ہے کچھ لذت بقا تو نہیں

کلیم احمدآبادی

;

سرور و کیف ہے کچھ لذت بقا تو نہیں
یہ ابتدا کی حقیقت ہے انتہا تو نہیں

ستارے تیر نگاہوں سے دیکھتے کیوں ہیں
مرا جنوں کوئی میرے لئے بلا تو نہیں

فریب کھائے نہ کیوں کر کسی کا سادہ دل
زمانہ ساز نگاہوں سے آشنا تو نہیں

کہیں گری تو ہے بجلی ذرا نظر کیجے
کسی غریب کی پلٹی ہوئی دعا تو نہیں

ہزار بار خزاں سے بہار ٹکرائی
چمن کا راز مگر آج تک کھلا تو نہیں

مزاج حسن مکدر ہے کیوں خدا جانے
اس آئنہ میں کوئی بال آ گیا تو نہیں

ہجوم ناز میں جلوہ فریبیوں کے سوا
کلیمؔ اور کوئی حادثہ ہوا تو نہیں