سرخ سنہری سبز اور دھانی ہوتی ہے
جھیل کنارے شام سہانی ہوتی ہے
خود سے جب بھی آنکھ ملانی ہوتی ہے
آنکھ تو جیسے پانی پانی ہوتی ہے
رقص کرے اور آنکھ میں پانی بھر آئے
ہر لڑکی تھوڑی دیوانی ہوتی ہے
کتنی بوجھل ہے خفت کی گٹھری بھی
جو مجھ کو ہر روز اٹھانی ہوتی ہے
وہ کب بنا بتائے وعدہ توڑ گیا
آنکھوں سے بھی آنا کانی ہوتی ہے
نانی کے چہرے کی لکیروں کو بنتی
بچپن کی ہر شام کہانی ہوتی ہے
کیسے کہہ دوں مجھے محبت ہے تم سے
تم سے تو ہر بات چھپانی ہوتی ہے
دل کے دروازے پر آہٹ سنتی ہوں
جبھی تو آنکھوں میں حیرانی ہوتی ہے
بھیگے بھیگے ہونٹ جہاں ہوں شبنم کے
وہیں کہیں پر رات کی رانی ہوتی ہے
روز نگاہیں سچ کہہ دیتی ہیں سارا
روز مجھے ہی بات بنانی ہوتی ہے
تم سے مل کر سیماؔ نقوی خود اپنے
ہونے کی بھی یاد دہانی ہوتی ہے
غزل
سرخ سنہری سبز اور دھانی ہوتی ہے
سیما نقوی