EN हिंदी
سرخ موسم کی کہانی ہے پرانی ہو نہ ہو | شیح شیری
surKH mausam ki kahani hai purani ho na ho

غزل

سرخ موسم کی کہانی ہے پرانی ہو نہ ہو

احترام اسلام

;

سرخ موسم کی کہانی ہے پرانی ہو نہ ہو
آسماں کا رنگ آگے آسمانی ہو نہ ہو

خواب میں مجھ کو نظر آتی ہیں بھیگی سیپیاں
آنکھ کھلنے پر تری آنکھوں میں پانی ہو نہ ہو

ساتھ ہوتی ہے مرے ہر گام پر سنجیدگی
ہو رہی ہے دور اب مجھ سے جوانی ہو نہ ہو

ہر جگہ نکلے گی تیری بات مجھ کو دیکھ کر
تذکرہ تیرا کہیں میری زبانی ہو نہ ہو

روشنی دیتے رہیں گے مجھ کو زخموں کے چراغ
اب اندھیرے میں کہیں سے ضو فشانی ہو نہ ہو

اک طرف میری انا ہے اک طرف تیری خوشی
آ گیا میرے لیے پل امتحانی ہو نہ ہو

زہر کا پانی میں ہونا طے شدہ ہے احترامؔ
آگہی کے گھاٹ پر دریا میں پانی ہو نہ ہو