سرخ ہونٹوں سے مرے دل پہ نشانی لکھ دے
تو مرے نام کے آگے کبھی جانی لکھ دے
عمر گزری ہے مری شام فرات دل میں
میں ہوں پیاسا مرے نسخے میں تو پانی لکھ دے
اب تری یاد بھی کم کم ہی مجھے آتی ہے
جانے کس طرح سے گزری ہے جوانی لکھ دے
آرزو ایک ہی اس دل میں رہی ہے رقصاں
تو کوئی میرے لیے شام سہانی لکھ دے
میرے افسانۂ ہستی میں ہے تو بھی شامل
مری ناشاد محبت کی کہانی لکھ دے
عین ممکن ہے مرے دل کو سکوں مل جائے
صفحۂ دل پہ کوئی یاد پرانی لکھ دے
میں تو غالبؔ کا مقلد ہوں کنولؔ میرے لیے
مرے خامے کے مقدر میں روانی لکھ دے
غزل
سرخ ہونٹوں سے مرے دل پہ نشانی لکھ دے
کنول فیروز