سنتا رہا ہے اور سنے گا جہاں مجھے
یوں رکھ گیا ہے کوئی سر داستاں مجھے
سقراط کیا مسیح کیا ذکر حسین کیا
ماضی سنا رہا ہے مری داستاں مجھے
بے نور میرے بعد ہوئی بزم کائنات
تم تو بتا رہے تھے بہت رائیگاں مجھے
موجوں سے ایک عمر رہا معرکہ مگر
غرقاب کر گئیں مری گہرائیاں مجھے
کس کو گماں تھا وقت کا ڈھلتے ہی آفتاب
آ کر ڈرائیں گی مری پرچھائیاں مجھے
اسرارؔ ان کے لب تو کھلیں کچھ جواب میں
نا بھی اگر کہیں گے تو وہ ہوگی ہاں مجھے
غزل
سنتا رہا ہے اور سنے گا جہاں مجھے
اسرارالحق اسرار