سنسان راستوں پہ تری یاد نے کہا
حالات کا فریب بھی کتنا حسین تھا
اب کے بھی درد مند بہاروں نے جا بہ جا
پھولوں کی تختیوں پہ ترا نام لکھ دیا
رات ایک اجنبی کی طرح گھومتی رہی
دن ایک فلسفی کی طرح سوچتا رہا
ہر تیرگی نے مجھ سے اجالوں کی بات کی
ہر زہر اتفاق سے تریاک بن گیا
چمکا رہی ہے غم کے اندھیروں کو دور تک
کرنوں کی سیڑھیوں سے اترتی ہوئی صدا
یوں دل کے آس پاس ہے خوابوں کی روشنی
جیسے کسی گلی میں دریچہ ہو نیم وا
جامیؔ جو زندگی سے زیادہ عزیز تھے
ان کو بھی زندگی کی طرح بھولنا پڑا
غزل
سنسان راستوں پہ تری یاد نے کہا
خورشید احمد جامی

