سنو تو ذرا یہ آخر شب نفیر دعا عجیب سی ہے
زمان و مکاں پہ چھائی ہوئی جنوں کی نوا عجیب سی ہے
نظام نیا شعور نیا مثال عطا عجیب سی ہے
سوال پہ ہاتھ کاٹتے ہیں طلب کی سزا عجیب سی ہے
جگر پہ ہر اک سنان نظر جو سہتے ہوئے گزر گئے ہم
جواب میں اب حریفوں کی شکست انا عجیب سی ہے
یہ پاس بہار اشک پیے جو درد بڑھا تو شعر کہے
بتائیں کسے ہماری تباہیوں کی ادا عجیب سی ہے
اتر گئے چہرے گردشوں کے لرز گئی جان فاصلوں کی
شکستہ دلوں کے قافلے میں فغان درا عجیب سی ہے
زمانے کے سرد و گرم سے کب ملی ہے اماں مجھے کوثرؔ
وجود نفس کو بخشی ہوئی کرم کی قبا عجیب سی ہے
غزل
سنو تو ذرا یہ آخر شب نفیر دعا عجیب سی ہے
کوثر جائسی