EN हिंदी
سنو تو ذرا یہ آخر شب نفیر دعا عجیب سی ہے | شیح شیری
suno to zara ye aaKHir-e-shab nafir-e-dua ajib si hai

غزل

سنو تو ذرا یہ آخر شب نفیر دعا عجیب سی ہے

کوثر جائسی

;

سنو تو ذرا یہ آخر شب نفیر دعا عجیب سی ہے
زمان و مکاں پہ چھائی ہوئی جنوں کی نوا عجیب سی ہے

نظام نیا شعور نیا مثال عطا عجیب سی ہے
سوال پہ ہاتھ کاٹتے ہیں طلب کی سزا عجیب سی ہے

جگر پہ ہر اک سنان نظر جو سہتے ہوئے گزر گئے ہم
جواب میں اب حریفوں کی شکست انا عجیب سی ہے

یہ پاس بہار اشک پیے جو درد بڑھا تو شعر کہے
بتائیں کسے ہماری تباہیوں کی ادا عجیب سی ہے

اتر گئے چہرے گردشوں کے لرز گئی جان فاصلوں کی
شکستہ دلوں کے قافلے میں فغان درا عجیب سی ہے

زمانے کے سرد و گرم سے کب ملی ہے اماں مجھے کوثرؔ
وجود نفس کو بخشی ہوئی کرم کی قبا عجیب سی ہے