سنو کچھ دیدۂ نم بولتے ہیں
جو چپ تھے آج وہ غم بولتے ہیں
کہو سانسوں میں ہے آواز کس کی
یہ تم کہتے ہو یا ہم بولتے ہیں
تمہارے حسن کی خوشبو گلوں میں
تمہارا نام موسم بولتے ہیں
کسی کی بھی کبھی سنتے نہیں وہ
مگر ان سے کہو ہم بولتے ہیں
تمہارا راگ گھنگرو کے لبوں پر
تمہارے ہونٹ سرگم بولتے ہیں
تمہارے حسن کا جادو ہے کتنا
تمہاری زلف کے خم بولتے ہیں
وہ دیکھا ہے تمہاری چشم نم میں
جسے ہم ساغر جم بولتے ہیں
اسے ہم نے کہیں دیکھا نہیں ہے
جسے احباب ہمدم بولتے ہیں
ہر اک سنتا ہے ان کی بات اصغرؔ
جو سنتے ہیں بہت کم بولتے ہیں
غزل
سنو کچھ دیدۂ نم بولتے ہیں
اصغر ویلوری