EN हिंदी
سنیے پیام شمس و قمر رقص کیجیے | شیح شیری
suniye payam-e-shams-o-qamar raqs kijiye

غزل

سنیے پیام شمس و قمر رقص کیجیے

مظفر علی سید

;

سنیے پیام شمس و قمر رقص کیجیے
اس دائرے میں شام و سحر رقص کیجیے

پاکیزگی فضا کی ترنم نسیم کا
کیا چاندنی ہے پچھلے پہر رقص کیجیے

تالی بجا رہے ہیں شگوفے نئے نئے
آواز دے رہے ہیں شجر رقص کیجیے

کیا چھپ چھپا کے چھت کے تلے ناچ میں مزا
عریاں نکل کے در سے بدر رقص کیجیے

جی چاہتا ہے آج فرشتوں سے بھی کہوں
پرواز کیا ہے کھینچ کے پر رقص کیجیے

فرصت نہیں فقیہ کو زر کی تلاش سے
مطلق نہ کیجے خوف و خطر رقص کیجیے

گر اضطرار قابل تعزیر ہے تو ہو
ہے اپنے بس میں خیر نہ شر رقص کیجیے

دوزخ جلا کے درد کا اور آگہی کی آگ
دونوں کے درمیان اتر رقص کیجیے

تنہائیوں کے گیت نہ سب کو سنائیے
پاؤں ملا کے جوڑ کے سر رقص کیجیے

مت پوچھیے کہ پیار کا انجام کیا ہوا
پیارا چلا گیا ہے کدھر رقص کیجیے

مانند قیس ریت نہ صحرا کی چھانیے
کس کو ملی ہے کس کی خبر رقص کیجیے

کیجے طواف کوچۂ جاناں کو تیز تر
مضمر ہے اس میں سیر و سفر رقص کیجیے

سیدؔ قرار کو تو پڑی ہے تمام عمر
اک اور بھی غزل ہے اگر رقص کیجیے