سنی ہے روشنی کے قتل کی جب سے خبر میں نے
چراغوں کی طرف دیکھا نہیں ہے لوٹ کر میں نے
فراز دار سے اپنوں کے چہرے خود ہی پہچانے
فقیہ شہر کو جانا نہیں ہے معتبر میں نے
بھلا سورج کی طرف کون دیکھے کس میں ہمت ہے
ترے چہرے پہ ڈالی ہی نہیں اب تک نظر میں نے
یقیناً آندھیوں نے آ لیا کونجوں کی ڈاروں کو
کہ خوں آلودہ دیکھے ہیں فضا میں بال و پر میں نے
تمہارے بعد میں نے پھر کسی کو بھی نہیں دیکھا
نہیں ہونے دیا آلودہ دامان نظر میں نے
ہزاروں آرزوئیں رہ گئیں گرد سفر ہو کر
سجا رکھی ہے پلکوں پہ وہی گرد سفر میں نے
دم رخصت مری پلکوں پہ دو قطرے تھے اشکوں کے
کیا ہے زندگانی کے سفر کو مختصر میں نے
میں اپنے گھر میں خود اپنوں سے بازی ہار بیٹھا ہوں
ابھی سیکھا نہیں اپنوں میں رہنے کا ہنر میں نے
سرور انبالویؔ اپنے ہی دل میں اس کو پایا ہے
جسے اک عمر تک آواز دی ہے در بدر میں نے
غزل
سنی ہے روشنی کے قتل کی جب سے خبر میں نے
سرور انبالوی