سنے راتوں کوں گر جنگل میں میرے غم کی واویلا
تو مجنوں قبر سیں اٹھ کر پکارے آہ یا لیلیٰ
ہمارا خون ناحق نیں ہوا ضائع ارے قاتل
زمیں سے گل ہو نکلا آسماں پر ہو شفق پھیلا
ہرن سب ہیں براتی اور دوانہ بن کا دولہا ہے
بہ ہر خلعت کوں عریانی کی پھرتا ہے بنا چھیلا
شراب صاف دے تا صاف ہو ساقی غبار غم
ہمارا دل نپٹ گرد کدورت سے ہے اب میلا
سراجؔ اس شعلہ رو کی تنگ پوشی کوں کہاں پہنچے
کہ ہے جامہ بدن میں شمع کے فانوس کا ڈھیلا
غزل
سنے راتوں کوں گر جنگل میں میرے غم کی واویلا
سراج اورنگ آبادی