سناتا ہے کوئی بھولی کہانی
مہکتے میٹھے دریاؤں کا پانی
یہاں جنگل تھے آبادی سے پہلے
سنا ہے میں نے لوگوں کی زبانی
یہاں اک شہر تھا شہر نگاراں
نہ چھوڑی وقت نے اس کی نشانی
میں وہ دل ہوں دبستان الم کا
جسے روئے گی برسوں شادمانی
تحیر نے اسے دیکھا ہے اکثر
خرد کہتی ہے جس کو لا مکانی
خیالوں ہی میں اکثر بیٹھے بیٹھے
بسا لیتا ہوں اک دنیا سہانی
ہجوم نشۂ فکر سخن میں
بدل جاتے ہیں لفظوں کے معانی
بتا اے ظلمت صحرائے امکاں
کہاں ہوگا مرے خوابوں کا ثانی
اندھیری شام کے پردوں میں چھپ کر
کسے روتی ہے چشموں کی روانی
کرن پریاں اترتی ہیں کہاں سے
کہاں جاتے ہیں رستے کہکشانی
پہاڑوں سے چلی پھر کوئی آندھی
اڑے جاتے ہیں اوراق خزانی
نئی دنیا کے ہنگاموں میں ناصرؔ
دبی جاتی ہیں آوازیں پرانی
غزل
سناتا ہے کوئی بھولی کہانی
ناصر کاظمی