سنا کرو مری جاں ان سے ان سے افسانے
سب اجنبی ہیں یہاں کون کس کو پہچانے
یہاں سے جلد گزر جاؤ قافلے والو
ہیں میری پیاس کے پھونکے ہوئے یہ ویرانے
مرے جنون پرستش سے تنگ آ گئے لوگ
سنا ہے بند کیے جا رہے ہیں بت خانے
جہاں سے پچھلے پہر کوئی تشنہ کام اٹھا
وہیں پہ توڑے ہیں یاروں نے آج پیمانے
بہار آئے تو میرا سلام کہہ دینا
مجھے تو آج طلب کر لیا ہے صحرا نے
ہوا ہے حکم کہ کیفیؔ کو سنگسار کرو
مسیح بیٹھے ہیں چھپ کے کہاں خدا جانے
غزل
سنا کرو مری جاں ان سے ان سے افسانے
کیفی اعظمی