EN हिंदी
سنا کر حال قسمت آزما کر لوٹ آئے ہیں | شیح شیری
suna kar haal qismat aazma kar lauT aae hain

غزل

سنا کر حال قسمت آزما کر لوٹ آئے ہیں

ہری چند اختر

;

سنا کر حال قسمت آزما کر لوٹ آئے ہیں
انہیں کچھ اور بیگانہ بنا کر لوٹ آئے ہیں

پھر اک ٹوٹا ہوا رشتہ پھر اک اجڑی ہوئی دنیا
پھر اک دلچسپ افسانہ سنا کر لوٹ آئے ہیں

فریب آرزو اب تو نہ دے اے مرگ مایوسی
ہم امیدوں کی اک دنیا لٹا کر لوٹ آئے ہیں

خدا شاہد ہے اب تو ان سا بھی کوئی نہیں ملتا
بزعم خویش ان کو آزما کر لوٹ آئے ہیں

بچھے جاتے ہیں یا رب کیوں کسی کافر کے قدموں میں
وہ سجدے جو در کعبہ پہ جا کر لوٹ آئے ہیں