سن سن کے چپ ہیں طعنۂ اغیار کیا کریں
مجبور ہیں وفا کے پرستار کیا کریں
روئیں لہو نہ دیدۂ خوں بار کیا کریں
مجروح جب ہو عشق کا پندار کیا کریں
اظہار حق کے واسطے منصور اب کہاں
باطل پرست حوصلۂ دار کیا کریں
ہو جائے شش جہت نہ کہیں یہ دھواں دھواں
جوش جنوں میں آہ شرربار کیا کریں
ساقی یہ تشنگی سر مے خانہ تا بہ کے
جام و سبو نہ توڑیں تو مے خوار کیا کریں
جب آستین شیخ حرم غرق بادہ ہو
لوگ احترام جبہ و دستار کیا کریں
ہم فخرؔ سرکشوں کے نہ آگے کبھی جھکے
رکھتے ہیں اک طبیعت خوددار کیا کریں

غزل
سن سن کے چپ ہیں طعنۂ اغیار کیا کریں
افتخار احمد فخر