سکوت شام سے گھبرا نہ جائے آخر تو
مرے دیار سے گزری جو اے کرن پھر تو
لباس جاں میں نہیں شعلگی کا رنگ مگر
جھلس رہا ہے مرے ساتھ کیوں بظاہر تو
وفائے وعدہ و پیماں کا اعتبار بھی کیا
کہ میں تو صاحب ایماں ہوں اور منکر تو
مرے وجود میں اک بے زباں سمندر ہے
اتر کے دیکھ سفینے سے میری خاطر تو
میں شاخ سبز نہیں محرم صبا بھی نہیں
مرے فریب میں کیوں آ گیا ہے طائر تو
اسی امید پہ جلتے ہیں راستوں میں چراغ
کبھی تو لوٹ کے آئے گا اے مسافر تو
غزل
سکوت شام سے گھبرا نہ جائے آخر تو
نصیر ترابی