سکوت ارض و سما میں خوب انتشار دیکھوں
خلا میں اپنی صدا کا پھیلا غبار دیکھوں
عجب نہیں ہے کہ آ ہی جائے وہ خوش سماعت
دیار دل سے میں کیوں نہ اس کو پکار دیکھوں
کھڑی ہے دیوار آنسوؤں کی مرے برابر
تو کس طرح میں تری تمنا کے پار دیکھوں
بکھرتا جاتا ہوں جیسے تسبیح کے ہوں دانے
جب اس کے آنسو قطار اندر قطار دیکھوں
وہ میرا اثبات چاہتا ہے سو جبر یہ ہے
میں اپنے ہونے میں اس کو بے اختیار دیکھوں
جو ایک دم میں تمام روحوں کو خاک کر دے
بدن سے اڑتا ہوا اک ایسا شرار دیکھوں
بہت دنوں سے وہاں میں اپنا ہی منتظر ہوں
تو خود کو اک دن تری گلی سے گزار دیکھوں

غزل
سکوت ارض و سما میں خوب انتشار دیکھوں
سالم سلیم