EN हिंदी
سکوت بڑھنے لگا ہے صدا ضروری ہے | شیح شیری
sukut baDhne laga hai sada zaruri hai

غزل

سکوت بڑھنے لگا ہے صدا ضروری ہے

سلیم فوز

;

سکوت بڑھنے لگا ہے صدا ضروری ہے
کہ جیسے حبس میں تازہ ہوا ضروری ہے

پھر اس کے بعد ہر اک فیصلہ سر آنکھوں پر
مگر گواہ کا سچ بولنا ضروری ہے

بہت قریب سے کچھ بھی نہ دیکھ پاؤ گے
کہ دیکھنے کے لیے فاصلہ ضروری ہے

تم اپنے بارے میں مجھ سے بھی پوچھ سکتے ہو
یہ تم سے کس نے کہا آئنہ ضروری ہے

گریز پائی کے موسم عجیب ہوتے ہیں
سفر میں کوئی مزاج آشنا ضروری ہے

حوالہ مانگ رہا ہے مری محبت کا
جو فوزؔ مجھ سے یہ کہتا تھا کیا ضروری ہے