سکون دل گیا نظروں سے سب قطارے گئے
چمن میں کھلتے ہوئے جب سے پھول مارے گئے
ہوائے موت ذرا دیر کیا ادھر آئی
کہ میرے ہاتھ سے اڑ کر مرے غبارے گئے
یہ کیسی کربلا برپا ہوئی پشاور میں
لہو میں ڈوبے ہوئے میرے بچے مارے گئے
انہیں ہی مرتبہ ملتا ہے جا کے جنت میں
حصول علم کی خاطر جو جان وارے گئے
چمن اجاڑنے والو تمہیں خدا سمجھے
تمہیں نہ آئی حیا پھول تو ہمارے گئے
رہے گا یاد ہمیں آنے والی نسلوں تک
وہ نقش پا جو یہاں خون سے ابھارے گئے
سلام میرا عظیمؔ ان شہید بچوں کو
جو اپنی جیت کی خاطر بھی جان ہارے گئے
غزل
سکون دل گیا نظروں سے سب قطارے گئے
عظیم حیدر سید