EN हिंदी
سکوں اگر ہے تو بس لطف انتظار میں ہے | شیح شیری
sukun agar hai to bas lutf intizar mein hai

غزل

سکوں اگر ہے تو بس لطف انتظار میں ہے

مظفر ممتاز

;

سکوں اگر ہے تو بس لطف انتظار میں ہے
کہ بے بسی تو بہ ہر حال اختیار میں ہے

یہ خوف بھی ہے کہ اشکوں میں ڈھل نہ جائے کہیں
وہ ایک آہ جو نغمے کی انتظار میں ہے

تھکا دیا ہے خود اپنی تلاش نے مجھ کو
کہ میرا اصل مرے جھوٹ کے حصار میں ہے

وہ دشمنوں کا ہو لشکر کہ دوستوں کا ہجوم
یہ راز ہے جو ابھی پردۂ غبار میں ہے

صدائے رنگ کی نغمہ گری سے کھل نہ سکا
وہ ایک قفل جو اب تک لب بہار میں ہے