سکوں اگر ہے تو بس لطف انتظار میں ہے
کہ بے بسی تو بہ ہر حال اختیار میں ہے
یہ خوف بھی ہے کہ اشکوں میں ڈھل نہ جائے کہیں
وہ ایک آہ جو نغمے کی انتظار میں ہے
تھکا دیا ہے خود اپنی تلاش نے مجھ کو
کہ میرا اصل مرے جھوٹ کے حصار میں ہے
وہ دشمنوں کا ہو لشکر کہ دوستوں کا ہجوم
یہ راز ہے جو ابھی پردۂ غبار میں ہے
صدائے رنگ کی نغمہ گری سے کھل نہ سکا
وہ ایک قفل جو اب تک لب بہار میں ہے
غزل
سکوں اگر ہے تو بس لطف انتظار میں ہے
مظفر ممتاز