EN हिंदी
سخن راز نشاط و غم کا پردہ ہو ہی جاتا ہے | شیح شیری
suKHan raaz-e-nashat-o-gham ka parda ho hi jata hai

غزل

سخن راز نشاط و غم کا پردہ ہو ہی جاتا ہے

شاذ تمکنت

;

سخن راز نشاط و غم کا پردہ ہو ہی جاتا ہے
غزل کہہ لیں تو جی کا بوجھ ہلکا ہو ہی جاتا ہے

وہ عالم جب کسی مایوس کا ہوتا نہیں کوئی
تجھے معلوم بھی ہے تو کسی کا ہو ہی جاتا ہے

کیا ہے میں نے اظہار تمنا جانے کس کس سے
مجھے اکثر تری صورت کا دھوکا ہو ہی جاتا ہے

ہجوم آرزو ہمراہ جان و دل سہی لیکن
قریب کوئے جاناں کوئی تنہا ہو ہی جاتا ہے

ہمیں تو عمر بھر کا غم کہ ایسا کیوں ہوا ہوگا
ہمیں اب کون سمجھائے کہ ایسا ہو ہی جاتا ہے

کوئی تجھ سا نہیں ہے انجمن در انجمن دیکھا
تری تنہائیوں میں کوئی تجھ سا ہو ہی جاتا ہے

نہ رو یوں شاذؔ آنکھیں جو دکھائیں دیکھتے جاؤ
نہ اتنا غم کرو یہ دل ہے صحرا ہو ہی جاتا ہے