سخن راز نشاط و غم کا پردہ ہو ہی جاتا ہے
غزل کہہ لیں تو جی کا بوجھ ہلکا ہو ہی جاتا ہے
وہ عالم جب کسی مایوس کا ہوتا نہیں کوئی
تجھے معلوم بھی ہے تو کسی کا ہو ہی جاتا ہے
کیا ہے میں نے اظہار تمنا جانے کس کس سے
مجھے اکثر تری صورت کا دھوکا ہو ہی جاتا ہے
ہجوم آرزو ہم راہ جان و دل سہی لیکن
قریب کوئے جاناں کوئی تنہا ہو ہی جاتا ہے
ہمیں تو عمر بھر کا غم کہ ایسا کیوں ہوا ہوگا
ہمیں اب کون سمجھائے کہ ایسا ہو ہی جاتا ہے
کوئی تجھ سا نہیں ہے انجمن در انجمن دیکھا
مگر تنہائیوں میں کوئی تجھ سا ہو ہی جاتا ہے
نہ رو یوں شاذؔ آنکھیں جو دکھائیں دیکھتے جاؤ
نہ اتنا غم کرو یہ دل ہے صحرا ہو ہی جاتا ہے
غزل
سخن راز نشاط و غم کا پردہ ہو ہی جاتا ہے
شاذ تمکنت