EN हिंदी
سخن کو بے حسی کی قید سے باہر نکالوں | شیح شیری
suKHan ko be-hisi ki qaid se bahar nikalun

غزل

سخن کو بے حسی کی قید سے باہر نکالوں

یعقوب یاور

;

سخن کو بے حسی کی قید سے باہر نکالوں
تمہاری دید کا کوئی نیا منظر نکالوں

یہ بے مصرف سی شے ہر گام آڑے آنے والی
انا کی کینچلی کو جسم سے باہر نکالوں

طلسمی معرکے کہتے ہیں اب سر ہو چکے ہیں
ذرا زنبیل کے کونے سے میں بھی سر نکالوں

لہو مہکا تو سارا شہر پاگل ہو گیا ہے
میں کس صف سے اٹھوں کس کے لیے خنجر نکالوں

بس اب تو منجمد ذہنوں کی یاورؔ برف پگھلے
کہاں تک اپنی استعداد کے جوہر نکالوں