سکھ دکھ میں گرم و سرد میں سیلاب میں بھی ہیں
یادیں تمہاری موسم شاداب میں بھی ہیں
ہونے لگی شکست جو ہر موڑ پر مجھے
دشمن پتہ چلا مرے احباب میں بھی ہیں
دامن کو پاک رکھنے کے حق میں تھا میں مگر
وو کہہ رہی تھی داغ تو مہتاب میں بھی ہیں
دلی سخن وروں کا ہے مرکز مگر میاں
اردو کے کچھ چراغ تو پنجاب میں بھی ہیں
رنگین مرتبان میں یہ خوش نہیں تو کیا
کچھ مچھلیاں اداس تو تالاب میں بھی ہیں
غزل
سکھ دکھ میں گرم و سرد میں سیلاب میں بھی ہیں
جتندر پرواز