سبو اٹھاؤں تو پینے کے بیچ کھلتی ہے
کوئی گلی میرے سینے کے بیچ کھلتی ہے
تمام رات ستارے تلاش کرتے ہیں
وہ چاندنی کسی زینے کے بیچ کھلتی ہے
تو دیکھتا ہے تو تشکیل پانے لگتا ہوں
مری بساط نگینے کے بیچ کھلتی ہے
گرفت ہوش نہیں سہل دست برداری
گرہ یہ سخت قرینے کے بیچ کھلتی ہے
کنارۂ مہ و انجم جہاں تلک بھی ہو
یہ روشنی اسی جینے کے بیچ کھلتی ہے
نہ بادبان کوئی اور نہ رود و سمت و سکوں
تو کس کی کھینچ سفینے کے بیچ کھلتی ہے
رکوں تو دیکھ سکوں آسمان کی کھڑکی
جو ایک بار مہینے کے بیچ کھلتی ہے
ذرا سا اور بھی کینہ اے کینہ پرور جاں
مری نظر ترے کینے کے بیچ کھلتی ہے
یہ کون چھوڑ گیا ہے مقام اصل نویدؔ
یہ کس کی باس دفینے کے بیچ کھلتی ہے
غزل
سبو اٹھاؤں تو پینے کے بیچ کھلتی ہے
افضال نوید