سبک ہوں اپنی نگاہوں میں عرض حال کے بعد
کہ آبرو نہیں رہتی کبھی سوال کے بعد
نہ پوچھو دل کو ہوئی ہیں اذیتیں کیا کیا
کبھی سوال سے پہلے کبھی سوال کے بعد
ضمیر کی وہ مسلسل ملامتیں توبہ
ملا ہے دل کو سکوں اشک انفعال کے بعد
قرار دل کو نہیں تھا قرار دل کو نہیں
ترے وصال سے پہلے ترے وصال کے بعد
ترے عتاب سہے صبر سے تو لطف ہوا
ترا جمال بھی دیکھا ترے جلال کے بعد
ظن و گماں سے گزر کر ترا خیال آیا
کوئی خیال نہ آیا ترے خیال کے بعد
میں دل تو ہار چکا جان و مال حاضر ہیں
خلشؔ کے پاس ہے کیا اور جان و مال کے بعد
غزل
سبک ہوں اپنی نگاہوں میں عرض حال کے بعد
خلش کلکتوی