صبحیں کرنیں تھا میں، پھر بھی شامیں پھر بھی رات
اک پردہ، پھر فردا ہے اور پھر آگے کی بات
سوچیں تارے نوچیں اور جا پہنچیں کتنی دور
دل ہے گہرا اک جا ٹھہرا کھوجے اپنی ذات
اک چادر لفظوں کی بن کر چھپ چھپ بیٹھوں اوٹ
پر آنکھیں اپنی ہانکیں اور کھلتی جائے بات
گھاتیں اس کی ساری باتیں گھاتیں اس کے طور
گھات ہے الفت، گھات ہے نفرت اور نیناں ہیں گھات
آنچل چھوڑوں بادل اوڑھوں پیچھے پیچھے چاند
آنکھیں کھولوں، لاکھ ٹٹولوں کچھ نہیں میرے ہات
عشق میں پہلے پل دل چنچل، دوجا پل اک روگ
تیجے پل یہ نیناں جل تھل، چوتھے پل سب مات
برکھا کا قطرہ بھی دریا سارے رت کے کھیل
بھادوں کی چھاجوں بارش بھی پل دو پل کی بات
غزل
صبحیں کرنیں تھا میں، پھر بھی شامیں پھر بھی رات
نکہت یاسمین گل