صبحیں کیسی آگ لگانے والی تھیں
شامیں کیسی دھواں اٹھانے والی تھیں
کیسا اتھاہ سمندر تھا وہ خیالوں کا
موجیں کتنا شور مچانے والی تھیں
دروازے سب دل میں آ کر کھلتے تھے
دیواریں چہروں کو دکھانے والی تھیں
رستوں میں زندہ تھی آہٹ قدموں کی
گلیاں کیا خوشبو مہکانے والی تھیں
برساتیں زخموں کو ہرا کر دیتی تھیں
اور ہوائیں پھول کھلانے والی تھیں
کیسی ویرانی اب ان پہ برستی ہے
یہ آنکھیں تو دیے جلانے والی تھیں
ان باتوں سے دل کا خزانہ خالی ہے
وہ باتیں جو اگلے زمانے والی تھیں

غزل
صبحیں کیسی آگ لگانے والی تھیں
مغنی تبسم