سبحہ ہے زنار کیوں کیسی کہی
زاہد عیار کیوں کیسی کہی
کٹ گئے اغیار کیوں کیسی کہی
چھا گئی ہر بار کیوں کیسی کہی
ہیں یہ سب اقرار جھوٹے یا نہیں
کیجئے اقرار کیوں کیسی کہی
روٹھنے سے آپ کا مطلب یہ ہے
اس کو آئے پیار کیوں کیسی کہی
کہہ دیا میں نے سحر ہے جھوٹ موٹ
ہو گئے بیدار کیوں کیسی کہی
ایک تو کہتے ہیں صدہا بھپتیاں
اور پھر اصرار کیوں کیسی کہی
ناصحا یہ بحث دیوانوں کے ساتھ
عقل کی ہے مار کیوں کیسی کہی
یا خفا تھے یا ذرا سی بات پر
ہو گئی بوچھار کیوں کیسی کہی
مجھ سے بیعت کر لے تو بھی واعظا
ہاتھ لانا یار کیوں کیسی کہی
سرمہ دے کر دل کے لینے کا ہے قصد
آنکھ تو کر چار کیوں کیسی کہی
جان دے دے چل کے در پر یار کے
او دل بیمار کیوں کیسی کہی
کیا ہی بگڑے ہو پتے کی بات پر
ہو گئے بیزار کیوں کیسی کہی
اب تو حیدرؔ اور ہی کچھ رنگ ہیں
مانتا ہوں یار کیوں کیسی کہی
غزل
سبحہ ہے زنار کیوں کیسی کہی
نظم طبا طبائی