EN हिंदी
صبح سے چاک بھی ہو دامن شب ضد ہے اسے | شیح شیری
subh se chaak bhi ho daman-e-shab zid hai use

غزل

صبح سے چاک بھی ہو دامن شب ضد ہے اسے

خورشید رضوی

;

صبح سے چاک بھی ہو دامن شب ضد ہے اسے
عین ماتم میں سجے بزم طرب ضد ہے اسے

خود ہر اک بات سے واقف ہے مگر اوروں کو
کچھ نہیں جاننے دیتا یہ عجب ضد ہے اسے

اس کو سب ایک ہے یوں درد و سکوں وصل و فراق
ہاں مگر میری تمنا کے سبب ضد ہے اسے

بات اپنوں کی پکڑ لے تو کہاں چھوڑتا ہے
درگزر غیر سے فرمائے تو کب ضد ہے اسے

سر اگر خم ہے تو محفوظ خم تیغ سے ہے
اور اگر زیر سپر ہے تو غضب ضد ہے اسے

سن کے قاصد نے کہا میری دلیلیں خورشیدؔ
خیر پہلے جو نہیں بھی تھی تو اب ضد ہے اسے