صبح لکھتی ہے ترا نام مری آنکھوں میں
قید تنہائی کی ہے شام میری آنکھوں میں
نیند آتی ہے دعا دے کے چلی جاتی ہے
اشک جب کرتا ہے آرام مری آنکھوں میں
اب ترے نقش کف پا کو مٹانے خوشبو
آئی ہے گردش ایام مری آنکھوں میں
دو قدم ساتھ چلے تب تو بتاؤں اس کو
ہے تری منزل گم نام مری آنکھوں میں
تجھ کو اوروں سے چھپایا ہے ہمیشہ لیکن
صاف دکھاتا ہے ترا نام مری آنکھوں میں
پھر سے آغاز محبت میں کروں تو کیسے
قید ہیں عشق کے انجام مری آنکھوں میں

غزل
صبح لکھتی ہے ترا نام مری آنکھوں میں
فیض جونپوری