صبح کی پہلی کرن پہلی نظر سے پہلے
ہم کو ہونا ہے کہیں اور سحر سے پہلے
چاند نے دیکھ لیا ہم کو کنار دریا
بھاگ چلتے ہیں کسی اور خبر سے پہلے
لو لگانے سے گئی در بدری کی ذلت
خود کو پہنچا ہوا لگتا ہوں سفر سے پہلے
کیوں نہ دنیا کو دکھاؤں میں جلے ہاتھ کا زخم
کچھ چراغوں سے تعلق تھا ادھر سے پہلے
اک ہتھیلی ہے مری ایک ہتھیلی اس کی
سب دعائیں ہیں اثر یاب اثر سے پہلے
شام کے بعد اندھیرا نہیں رہتا گھر میں
ایک سورج نکل آتا ہے سحر سے پہلے
تب مری آنکھ کھلا کرتی تھی اندر کی طرف
میں نے دیکھا ہے اسے پہلی نظر سے پہلے
تو فقط سینہ و دل ہے نہ فقط عارض و لب
سخن آغاز کرے کوئی کدھر سے پہلے
غزل
صبح کی پہلی کرن پہلی نظر سے پہلے
عباس تابش