EN हिंदी
صبح عشرت زندگی کی شام ہو کر رہ گئی | شیح شیری
subh-e-ishrat zindagi ki sham ho kar rah gai

غزل

صبح عشرت زندگی کی شام ہو کر رہ گئی

سیف بجنوری

;

صبح عشرت زندگی کی شام ہو کر رہ گئی
حسرت دل موت کا پیغام ہو کر رہ گئی

تم نے دنیا کو لٹا دیں نعمتیں اچھا کیا
میری دنیا بس تمہارا نام ہو کر رہ گئی

جس سحر کی ہم نے مانگی تھی اسیری میں دعا
وہ سحر آئی تو لیکن شام ہو کر رہ گئی

اے محبت کے خدا اے عشق کے پروردگار
ہر تمنا اب خیال خام ہو کر رہ گئی

خوف رسوائی نے مجھ کو آہ بھی بھرنے نہ دی
لب تک آئی بھی تو ان کا نام ہو کر رہ گئی

دیکھ کر ان کو مری آنکھوں میں بھر آئے تھے اشک
بات ہی کیا تھی مگر وہ عام ہو کر رہ گئی

اہل محفل دیکھتے ہی سیفؔ بے خود ہو گئے
ہر ادا ساقی کی شرح جام ہو کر رہ گئی