صبح عشرت زندگی کی شام ہو کر رہ گئی
حسرت دل موت کا پیغام ہو کر رہ گئی
تم نے دنیا کو لٹا دیں نعمتیں اچھا کیا
میری دنیا بس تمہارا نام ہو کر رہ گئی
جس سحر کی ہم نے مانگی تھی اسیری میں دعا
وہ سحر آئی تو لیکن شام ہو کر رہ گئی
اے محبت کے خدا اے عشق کے پروردگار
ہر تمنا اب خیال خام ہو کر رہ گئی
خوف رسوائی نے مجھ کو آہ بھی بھرنے نہ دی
لب تک آئی بھی تو ان کا نام ہو کر رہ گئی
دیکھ کر ان کو مری آنکھوں میں بھر آئے تھے اشک
بات ہی کیا تھی مگر وہ عام ہو کر رہ گئی
اہل محفل دیکھتے ہی سیفؔ بے خود ہو گئے
ہر ادا ساقی کی شرح جام ہو کر رہ گئی
غزل
صبح عشرت زندگی کی شام ہو کر رہ گئی
سیف بجنوری