EN हिंदी
صبح چلے تو ذوق طلب تھا عرش نشاں خورشید شکار | شیح شیری
subh chale to zauq-e-talab tha arsh-nishan KHurshid-shikar

غزل

صبح چلے تو ذوق طلب تھا عرش نشاں خورشید شکار

حمید نسیم

;

صبح چلے تو ذوق طلب تھا عرش نشاں خورشید شکار
منزل شام آئی تو ہم ہیں اور شکستوں کے انبار

دل کی نادانی تو دیکھو کیا کیا ارماں رکھتا ہے
جیسے دوام کا آئینہ ہو لمحوں کی گرتی دیوار

زیست سہی اک تیرہ شبستاں لیکن یارو شعلۂ شوق
اک دو نفس تو ایسا بھڑکا طور مثال تھا دل کا دیار

کل تک میں اور تو تھے باہم رقص صبا اور خندۂ گل
آج ترے لب یاس گزیدہ میرا حرف شوق فگار

زمزمہ و آہنگ کی دنیا کیا یکسر ویران ہوئی
محفل محفل ہو کا سماں ہے چہرہ چہرہ سنگ مزار

یوں بھی آگے راہ کٹھن ہے اور اتھاہ اندھیرا ہے
اے ماضی کے شہر چراغاں یوں نہ مجھے پیچھے سے پکار

سنگ و صلیب ہیں میداں میداں اور ہجوم جاں بازاں
کیسی دھوم سے آیا اب کے مرگ تمنا کا تہوار