سوز و گداز عشق کا چرچا نہ کر سکے
حسن ستم ظریف کو رسوا نہ کر سکے
وہ زخم چاہتا ہوں میں اے حسن دل فریب
جس کو تری نگاہ بھی اچھا نہ کر سکے
جب یاد آ گیا ہمیں افسانۂ ازل
غم ہائے روزگار کا شکوا نہ کر سکے
اٹھی نگاہ شوق تو پتھرا کے رہ گئی
اس جلوۂ حسیں کا نظارا نہ کر سکے
ساقی تری نگاہ کا انداز دیکھ کر
مے کش بقدر ظرف تقاضا نہ کر سکے
خود اعتراف جرم کیا ہم نے اے مشیرؔ
لیکن شکست حسن گوارا نہ کر سکے
غزل
سوز و گداز عشق کا چرچا نہ کر سکے
مشیر جھنجھانوی