سونے کے دل مٹی کے گھر پیچھے چھوڑ آئے ہیں
وہ گلیاں وہ شہر کے منظر پیچھے چھوڑ آئے ہیں
اپنے آئینوں کو ہم نے روگ لگا رکھا ہے
کیا کیا چہرے ہم شیشہ گر پیچھے چھوڑ آئے ہیں
تم اپنے دریا کا رونا رونے آ جاتے ہو
ہم تو اپنے سات سمندر پیچھے چھوڑ آئے ہیں
دیکھو ہم نے اپنی جانوں پر کیا ظلم کیا ہے
پھول سا چہرہ چاند سا پیکر پیچھے چھوڑ آئے ہیں
ہم بھی کیا پاگل تھے اپنے پیار کی ساری پونجی
اس کی اک اک یاد بچا کر پیچھے چھوڑ آئے ہیں
منزل سے اب دور نکل آئے ہیں قیسؔ تو خوش ہیں
ہمسائے کے کتے کا ڈر پیچھے چھوڑ آئے ہیں

غزل
سونے کے دل مٹی کے گھر پیچھے چھوڑ آئے ہیں
سعید قیس