EN हिंदी
صحبت شب کا طلب گار نہ ہوگا کوئی | شیح شیری
sohbat-e-shab ka talabgar na hoga koi

غزل

صحبت شب کا طلب گار نہ ہوگا کوئی

نامی انصاری

;

صحبت شب کا طلب گار نہ ہوگا کوئی
خوف اتنا ہے کہ بیدار نہ ہوگا کوئی

دھوپ ہر سمت سے نکلی تو کہاں جاؤ گے
دشت میں سایۂ دیوار نہ ہوگا کوئی

حرف احساس بھی جل جائے گا ہونٹوں کی طرح
مدعا قابل اظہار نہ ہوگا کوئی

میں کہ پروردۂ صحرا ہوں بکوں گا کیسے
دیکھ لینا کہ خریدار نہ ہوگا کوئی

کچھ تو ہے جس کی تپش زیر و زبر کرتی ہے
یوں ہی رسوا سر بازار نہ ہوگا کوئی

سارے عالم کو تجسس ہے نئی سمتوں کا
کیسے غالبؔ کا طرفدار نہ ہوگا کوئی

کس کو یہ عہد جنوں سونپ کے جاؤں نامیؔ
جانتا ہوں کہ سزاوار نہ ہوگا کوئی