سوئے ہوئے ذہنوں میں نادیدہ سویرا ہے
سورج کے بھی اگنے پر ہر سمت اندھیرا ہے
افسردہ دلوں میں بھی ارمانوں کا ڈیرا ہے
سوکھی ہوئی شاخوں پر چڑیوں کا بسیرا ہے
میں صاف طبیعت ہوں کچھ دل میں نہیں رکھتا
کیا سوچ کے منہ تم نے آئینے سے پھیرا ہے
جائیں تو کدھر جائیں بہکے ہوئے منزل سے
دھوپیں بھی گھنیری ہیں سایہ بھی گھنیرا ہے
جنبشؔ کوئی آ جائے اس وقت خیالوں میں
تنہائی کا عالم ہے احساس نے گھیرا ہے

غزل
سوئے ہوئے ذہنوں میں نادیدہ سویرا ہے
جنبش خیرآبادی