EN हिंदी
سوچتے ہیں کہ بلبلہ ہو جائیں | شیح شیری
sochte hain ki bulbula ho jaen

غزل

سوچتے ہیں کہ بلبلہ ہو جائیں

اشہد بلال ابن چمن

;

سوچتے ہیں کہ بلبلہ ہو جائیں
چند لمحے جئیں فنا ہو جائیں

دوستی اپنی دیر پا کر لیں
آؤ کچھ دن کو ہم جدا ہو جائیں

ساتھ تو ہے تو منزلیں اپنی
ورنہ بھٹکیں تو لاپتہ ہو جائیں

ہم کہ الفت میں جان تک دے دیں
اور بچھڑیں تو سانحہ ہو جائیں

رفتہ رفتہ تجھے تراشیں ہم
دھیرے دھیرے تری قبا ہو جائیں

یاد رکھنا بھی اک عبادت ہے
کیوں نہ ہم ان کا حافظہ ہو جائیں