سوچنا آتا ہے دانائی مجھے آتی نہیں
بونا آتا ہے گل آرائی مجھے آتی نہیں
سر اٹھاتا ہوں تو تا حد نظر پانی ہے
ڈوبنا چاہوں تو گہرائی مجھے آتی نہیں
ہنستا ہوں کھیلتا ہوں چیختا ہوں روتا ہوں
اپنے کردار میں یک جائی مجھے آتی نہیں
روزمرہ میں لپیٹی ہوئی بوسیدہ فضا
اپنے اطراف سے ابکائی مجھے آتی نہیں
رونقوں میں بھی الگ ہو کے رہا ہوں اکثر
بند کمرے میں بھی تنہائی مجھے آتی نہیں
لشکر آیا تھا مگر قافلے کی صورت ہوں
کسی بھی شکل میں پسپائی مجھے آتی نہیں
غزل
سوچنا آتا ہے دانائی مجھے آتی نہیں
قاسم یعقوب