سوچئے گر اسے ہر نفس موت ہے کچھ مداوا بھی ہو بے حسی کے لیے
سورجوں کی وراثت ملی تھی ہمیں در بدر ہو گئے روشنی کے لیے
کوئی آواز ہے وہ کوئی ساز ہے اس سے ہی رنگ و نکہت کا در باز ہے
جس طرف ہو نظر وہ رہے جلوہ گر کیسے سوچیں گے ہم پھر کسی کے لیے
بد دماغی مری ہے وہی جو کہ تھی طرز خود بیں تمہارا وہ ہے جو کہ تھا
چل رہے ہیں انا کے سہارے مگر راستہ ہی نہیں واپسی کے لیے
ہو سلامت مرا عشق جوش جنوں حسن کے راز خود منکشف ہو گئے
اتنی مشکل نہیں رہ گزار فنا بے خودی چاہئے آگہی کے لیے
غزل
سوچئے گر اسے ہر نفس موت ہے کچھ مداوا بھی ہو بے حسی کے لیے
شہزاد انجم برہانی