EN हिंदी
سوچئے گر اسے ہر نفس موت ہے کچھ مداوا بھی ہو بے حسی کے لیے | شیح شیری
sochiye gar use har-nafas maut hai kuchh mudawa bhi ho be-hisi ke liye

غزل

سوچئے گر اسے ہر نفس موت ہے کچھ مداوا بھی ہو بے حسی کے لیے

شہزاد انجم برہانی

;

سوچئے گر اسے ہر نفس موت ہے کچھ مداوا بھی ہو بے حسی کے لیے
سورجوں کی وراثت ملی تھی ہمیں در بدر ہو گئے روشنی کے لیے

کوئی آواز ہے وہ کوئی ساز ہے اس سے ہی رنگ و نکہت کا در باز ہے
جس طرف ہو نظر وہ رہے جلوہ گر کیسے سوچیں گے ہم پھر کسی کے لیے

بد دماغی مری ہے وہی جو کہ تھی طرز خود بیں تمہارا وہ ہے جو کہ تھا
چل رہے ہیں انا کے سہارے مگر راستہ ہی نہیں واپسی کے لیے

ہو سلامت مرا عشق جوش جنوں حسن کے راز خود منکشف ہو گئے
اتنی مشکل نہیں رہ گزار فنا بے خودی چاہئے آگہی کے لیے