EN हिंदी
سوچا نہیں اچھا برا دیکھا سنا کچھ بھی نہیں | شیح شیری
socha nahin achchha bura dekha suna kuchh bhi nahin

غزل

سوچا نہیں اچھا برا دیکھا سنا کچھ بھی نہیں

بشیر بدر

;

سوچا نہیں اچھا برا دیکھا سنا کچھ بھی نہیں
مانگا خدا سے رات دن تیرے سوا کچھ بھی نہیں

سوچا تجھے دیکھا تجھے چاہا تجھے پوجا تجھے
میری خطا میری وفا تیری خطا کچھ بھی نہیں

جس پر ہماری آنکھ نے موتی بچھائے رات بھر
بھیجا وہی کاغذ اسے ہم نے لکھا کچھ بھی نہیں

اک شام کے سائے تلے بیٹھے رہے وہ دیر تک
آنکھوں سے کی باتیں بہت منہ سے کہا کچھ بھی نہیں

احساس کی خوشبو کہاں آواز کے جگنو کہاں
خاموش یادوں کے سوا گھر میں رہا کچھ بھی نہیں

دو چار دن کی بات ہے دل خاک میں مل جائے گا
جب آگ پر کاغذ رکھا باقی بچا کچھ بھی نہیں