سوچ کے بے سمت دروازوں پہ جب پتھر لگا
میں سمٹ کر اڑ گیا خالی بدن کا گھر لگا
گھورتی ہیں ہر طرف بے نور آنکھیں کس لیے
آئینہ خانے میں اندھے سے کہو چکر لگا
یاد میں کپڑے بدلنے کے لیے مجھ سے چھپا
وہ کہیں بھی تھا مجھے کچھ دیر دریا پر لگا
جن منڈیروں سے کبوتر جھانکتے تھے رات دن
اتنی اونچی ہو گئی ہیں دیکھتے ہی ڈر لگا
اتفاقاً گھنٹیاں سی کان میں بجنے لگیں
میں اکیلا ہی تھا گھر میں سارا گھر مندر لگا

غزل
سوچ کے بے سمت دروازوں پہ جب پتھر لگا
ماجد الباقری