سوچ کا اک جلتا سا دیا ہے
سویا ہوا دکھ جاگ اٹھا ہے
چہرہ چہرہ بوجھ تھکن کا
آدھے رستے پر بیٹھا ہے
گہری یادوں کا سورج بھی
دھیرے دھیرے ڈوب چلا ہے
آگ لگا کر اپنے گھر کا
کوئی تماشا دیکھ رہا ہے
خالی ہاتھ اور خالی چہرے
پانی رستہ ڈھونڈ رہا ہے
کرنوں کی متوالی فضا میں
سورج سا اک تھال گڑا ہے
رستے جاتے ہیں گاؤں کو
شہر نے چہرہ بدل لیا ہے
مجھ میں کوئی بس جائے پھر
خالی کمرہ بول رہا ہے
دور چلیں مخدومؔ یہاں سے
اک اڑتے پنچھی نے کہا ہے
غزل
سوچ کا اک جلتا سا دیا ہے
مخدوم منور