سیاہ دل میں سفیدی کے بیج بوئے گا
بچھڑ کے جب وہ ملے گا تو خوب روئے گا
ہے اس کے پاس اجالوں کا مرہمی لشکر
وہ ساری رات اندھیروں کے زخم دھوئے گا
بدی کا سبز سمندر پکارتا ہے اسے
وہ نیکیوں کی سبھی کشتیاں ڈبوئے گا
وہ دے گا روح کو نام و نسب کی محرومی
بدن کی ڈور سے رشتے بہت پروئے گا
میں اس کی رحم کی بارش میں قحط زار ہوا
وہ اب کے دھوپ سے مٹی مری بھگوئے گا
غزل
سیاہ دل میں سفیدی کے بیج بوئے گا
خورشید اکبر

