EN हिंदी
سیاہ دل میں سفیدی کے بیج بوئے گا | شیح شیری
siyah dil mein safedi ke bij boega

غزل

سیاہ دل میں سفیدی کے بیج بوئے گا

خورشید اکبر

;

سیاہ دل میں سفیدی کے بیج بوئے گا
بچھڑ کے جب وہ ملے گا تو خوب روئے گا

ہے اس کے پاس اجالوں کا مرہمی لشکر
وہ ساری رات اندھیروں کے زخم دھوئے گا

بدی کا سبز سمندر پکارتا ہے اسے
وہ نیکیوں کی سبھی کشتیاں ڈبوئے گا

وہ دے گا روح کو نام و نسب کی محرومی
بدن کی ڈور سے رشتے بہت پروئے گا

میں اس کی رحم کی بارش میں قحط زار ہوا
وہ اب کے دھوپ سے مٹی مری بھگوئے گا