ستم گروں کے ستم کی اڑان کچھ کم ہے
ابھی زمیں کے لئے آسمان کچھ کم ہے
جو اس خیال کو بھولے تو مارے جاؤ گے
کہ اپنی سمت قیامت کا دھیان کچھ کم ہے
ہمارے شہر میں سب خیر و عافیت ہے مگر
یہی کمی ہے کہ امن و امان کچھ کم ہے
بنا رہا ہے فلک بھی عذاب میرے لئے
تیری زمین پہ کیا امتحان کچھ کم ہے
ابھی شمار کے قابل ہیں زخم دل میرے
ابھی وہ دشمن جاں مہربان کچھ کم ہے
ادھر تو درد کا پیالہ چھلکنے والا ہے
مگر وہ کہتے ہیں یہ داستان کچھ کم ہے
ہوائے وقت ذرا پیرہن کی خیر منا
یہ مت سمجھ کہ پرندوں میں جان کچھ کم ہے
غزل
ستم گروں کے ستم کی اڑان کچھ کم ہے
منظر بھوپالی